عبدالکریم دوست
ذکری مکتب فکر دیگر اسلامی مکاتب فکر کی طرح ایک مذہبی مکتب فکر ہے جسکی ابتداء سولہویں صدی عیسوی میں ہندوستان کے شہر جونپور داناپور سے ہوئی ، اس مکتب فکر کے بانی سید محمد مھدی ہیں جو 1443ء میں حضرت عبداللہ اور بی بی آمنہ کے بطن سے پیدا ہوئے ۔ آپ کے دادا عثمان سمر قند سے ہجرت کرکے جونپور میں مقیم ہوئے اور یہیں سید محمد مھدی پیدا ہوئے ۔ جب سید محمد مھدی چالیس کے ہوئے تو دعوتِ دین کی غرض سے جونپورسے ہجرت کی اور ہندوستان کے مختلف علاقوں سے ہوتے ہوئے نصرپور میں داخل ہوئے جہاں سے دریائے ٹھٹہ ہوتے ہوئے مکران کے ساحل علاقوں سے سفر کرتے ہوئے آپ تربت پہنچے ۔ جہاں کوہ مراد کی پہاڑی پر ساتھیوں سمیت کچھ دنوں تک قیام کیا اور پھر افغانستان کی طرف کوچ کیا ۔ افغانستان کے مختلف علاقوں سے ہوتے ہوئے فرہ پہنچے ، فرہ میں 1505ء میں فوت ہوئے اور وہی مدفن ہیں ۔
(سید محمد جونپوری مختصر سوانح عمری ، شمع بصیرت 2018 ص،45) یہ تحریک بعض علاقوں میں مھدوی موومنٹ کے نام سے معروف ہوئی اور بعض جگہ ذکری تحری کے نام سے مشہور ہے ۔ مھدوی اس لیے کہا جاتا ہے کہ آپ نے مھدیت کا دعوی کیا تھا ۔ اسی نسبت سے آپ کے ماننے والوں کو مھدوی کہا جاتا ہے اور ذکری اس لیے کہتے ہیں کہ حضرت محمد مھدی نے اپنی دعوت میں ذکر پر خصوصی توجہ دیا ۔ اس لیے مکران سمیت بعض علاقوں میں آپ کے ماننے والے ذکری کے نام سے معروف ہیں ۔
ذکری مکتب فکر کا مرکز تربت شہر ہےجہان کوہ مراد واقع ہے کوہ مراد ذکری مکتب فکرکی دعوت و تبلیغ کا مرکز ہے ۔ جو تربت شہر سے جنوب کی طرف ایک کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے جہاں ذکری مقدس راتوں میں اجتماعی عبادات کی غرض سے جمع ہوتے ہیں۔ ذکری پاکستان میں مکران ، آواران ، خضدار ، حب ، لسبیلہ ، کراچی ،اور اندرونی سندھ کے بعض علاقوں میں آباد ہیں ۔ اس کے علاوہ ، ہندوستان ،ایران ، متحدہ عرب امارات ، قطر ،بحرین ، مسقط سمیت مختلف عرب ممالک میں ذکری آباد ہیں ۔ حال ہی میں شمع بصیرت میں چھپنے والی سروے رپورٹ کے مطابق ذکریوں کی کل آبادی سولہ لاکھ ستاون ہزار آٹھ سو اکتالیس نفوس پر مشتمل ہے ۔(ذکریوں کی آبادی سروے رپورٹ ، شمع بصیرت 2021ص،65)
ذکری مکتب فکر کے لوگ اسلام کے بنیادی عقائد پر یقین رکھتے ہیں . اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہیں. انبیاء کرام ، صحائف سماویہ ، فرشتوں اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں . تقدیر پر یقین بھی ان کے ایمان کا حصہ ہے ۔ عقائد کے باب میں وہ دیگر مسالک کی طرح تمام بنیادی عقائد پر یقین رکھتے ہیں۔
سیّد نصیر احمد عقائد کے باب میں اپنے عقیدے کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
“اللہ کی ذات پر ذکری مکتب فکر کا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ ایک ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں ہے ، بے مثل و بے نظیر ہے ، اس کا کوئی جفت نہیں ، یکتا نہیں ، کوئی شریک نہیں، قدیم ہے اس کی کوئی انتہا نہیں ، ہمیشہ سےہے ، اس کا کوئی آخر نہیں ۔”
رسول اللہ ﷺ کی رسالت کے بارے میں لکھتے ہیں :
“انبیاء کی جماعت میں سب سے زیادہ فضلیت اولوالعزم رسول کو ہے اور برگزیدہ اولوالعزم رسولوں میں سے سب سے زیادہ فضیلت ہمارے نبی آنحضرت محمد ﷺ کو حاصل ہے کیونکہ آپ خاتم النبین ہیں ، خاتم المرسلین ہیں ، کافتہ الناس ہیں ، رحمت العالمین اور سب سے آخری نبی ہیں ۔ آپ کے بعد اصلاً کوئی نبی نہیں آئے گا۔ (سید نصیر احمد ،تفسیر ذکر وحدت، ص ،60)
عقائد کے باب میں ذکری عقیدہ ِمھدی کے علاوہ باقی تمام معاملات میں دیگر مکاتب فکر سے ہم آہنگ ہے تاہم مھدی علیہ السلام کے حوالے سے اختلاف موجود ہے ۔ ذکری مکتب فکر کے مطابق وہ مھدی جس کی پیشن گوئی محمد ﷺ نے کی تھی وہ آچکےہیں اور وہ سیّد محمد مھدی ہیں۔ ذکری عقائد کے مطابق مھدی کا آنا قیامت سے پہلے ضروری ہے۔ قیامت کے قریب نہیں ۔
باالفاظ دیگر آپ ﷺ نے قیامت کے متعلق جو پیشن گوئیاں کی ہیں وہ دوقسم کے ہیں ، علامات کبریٰ اور علامات صغریٰ ۔ علامات کبریٰ وہ ہیں جن ک پیش آنا قیامت کے بالکل نزدیک ضروری ہے ، جبکہ علامات صغریٰ وہ ہیں جن کا قیامت سے پہلے پیش آنا ضروری ہے قیامت کے قریب نہیں ۔ اس لحاظ سے ذکری عقیدے کے مطابق آپ ﷺ نے مھدی کی آمد کا تذکرہ علامات صغریٰ میں کیا ہے۔ علامات کبریٰ میں نہیں ، بایں وجہ وہ کہتے ہیں کہ مھدی آچکے ہیں اور سیّد محمد مھدی تھے وہ سیّد محمد مھدی کو امام اور مھدی مانتے ہیں –
ذکر مکتب فکر کے لوگ اپنی بنیادی عقیدے کا اظہار کلمہ کی صورت میں اس طرح کرتے ہیں
لا الہ الا اللہ الملک الحق المبین محمد ﷺ رسول اللہ صادق الوعد الامین۔
یہ کلمہ جز کے اعتبار سے اگر چہ وہی ہے جو عام طورپر دیگر مسلمانوں کے ہاں رائج ہے یعنی لا الہ الااللہ محمد رسول اللہ لیکن اس میں اللہ و رسول کے چند صفات بھی شامل ہیں۔ ذکری عام طور پر بھی اسی کلمہ کو پڑھتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ لاالہ الا اللہ محمد رسول درست ہے لیکن ہم چونکہ افضل عمل چاہتے ہیں اس وجہ سے ہم افضل کلمہ پڑھتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ مختصر کلمہ ہے وہ اس کی تفسیر ہے اور افضل بھی ہے ۔
شےقادر بلوچ لکھتے ہیں کہ:
یہ وہی کلمہ ہے۔ جو نبی کریمﷺ کے روضۃ مبارک کے درمعلیٰ پر کندہ ہے اور ذکری اللہ اور آخری رسول پر ایمان کامل رکھتے ہیں ۔ ( شے قادر ،شمع بصیرت ، الذکرین ویلفئیر فاؤنڈیشن ،2018،ص 47)
ذکریت کے چند بنیادی اصول ہیں جن پر ذکریت قائم ہے ان کو ارکان ولایت بھی کہا جاتا ہے ۔ یہ کل نو اصول ہیں جن پر سیّد محمد مھدی اپنی تعلیمات میں بہت زور دیتے ہیں اور اپنے ماننے والوں پر فرض کیا ہے کہ انکی پابندی کریں ۔
یہ اصول درج ذیل ہیں :
1۔ ترک دنیا
2۔ ذکر کثیر
3۔ توکل علی الله
4 ۔ صحبت صادقین
5۔رویت باری تعالی
6 ۔ ہجرت
7۔ عزلت نشینی
8۔ سویت
9۔عشر
یہ وہ نو بنیادی اصول ہیں جسکی بنیاد پر ذکری مکتب فکر کی عمارت قائم ہے۔ ہر ذکری پر لازم ہے کہ وہ ان ارکان ولایت کی پابندی کرے ۔ ( عیسی نوری، ذکری تحریک مختصر تاریخ و تعارف ،الذاکرین ویلفئیرفاؤنڈیشن،2010،ص،109)
اس کے علاوہ عبادت کے معاملے میں ذکری عقیدہ یہ ہے کہ پانچ وقت کی عبادت ہم پر فرض کردی گئی ہے اور اسکی پابندی ہم پر واجب ہے۔ تاہم اس عبادت کے طریقہ کار پر وہ دیگر مکاتب فکر سے اختلاف رکھتے ہیں ۔ اسی طرح زکواۃ کو بھی مالی عبادت سمجھتے ہیں اور اسکی پابندی کرتے ہیں ۔ تاہم ذکریوں میں عشر کا نظام رائج ہے جس کے مطابق انہیں ترغیب دی گئی ہے کہ وہ ہر قسم کے مال سے دسواں حصہ خدا کی راہ میں خرچ کریں ۔ اسکے علاوہ ذکر ی رمضان کے روزوں کے فرضیت کے قائل ہیں۔ تاہم اس کے ساتھ ساتھ ذکری ذوالج کے دس روزے بھی باقاعدگی سے رکھتے ہیں۔ حج کو بھی عین قرآنی حکم کے مطابق فرض عبادات میں شمار کرتے ہیں ۔
اس کے علاوہ اجتماعی ذکر کا بھی اہتمام وقتا فوقتا کیا جاتا ہے ۔ یہ سماع کی صورت میں ہوتی ہے جسے مقامی زبان میں ،سپت ، بیت ، صدا، غزل اور چوگان کہا جاتا ہے ۔ جس میں اللہ اور رسول کے شان میں دورد پڑھے جاتے ہیں اور اللہ کی بزرگی بیان کیجاتی ہے ۔
تاریخی طور پر، ذکری، جو بنیادی طور پر بلوچ ہیں، بلوچستان کے ایک حصے میں رہتے تھے جسے مکران کہا جاتا ہے، جو جنوب میں ہے۔ ان کی آواران، خضدار، لسبیلہ، کراچی، سندھ کے اندرونی حصوں اور ایران کے سیستان بلوچستان میں بھی آبادیاں ہیں۔ غیر سرکاری اندازوں کے مطابق ذکری بلوچ کی عالمی آبادی 750,000 ہے۔ ان کی اکثریت بلوچستان میں رہتی ہے۔
ضیاء کے جانے سے ذکریوں کے مسائل مزید بڑھ گئے۔ 1988 میں بلوچستان کے وزیراعلیٰ بننے پر نواب اکبر خان بگٹی نے انہیں پرتشدد انتہا پسندوں سے بچایا۔ اپوزیشن نے ان وجوہات کی بنا پر ان کی حکومت پر غیر معمولی دباؤ ڈالا۔
2015 میں شائع ہونے والی ڈان کی ایک خبر میں بتایا گیا تھا کہ بلوچستان میں ذکری لوگوں کو خطرہ ہے۔ اگست 2014 کے اواخر میں، چند بندوق برداروں نے تیرتیج میں ایک عبادت گاہ پر حملہ کیا اور لوگوں پر فائرنگ کی۔ چھ افراد ہلاک اور سات زخمی ہوئے۔ اس وقت 30 لوگ تیرتیج کے اندر نماز پڑھ رہے تھے۔ مزید برآں، باہر بیٹھک میں بیٹھے خاندان فائرنگ سے بچ گئے۔
تب سے، تقریباً 400 ذکری محفوظ علاقوں کی طرف ہجرت کر چکے ہیں جبکہ دیگر پیچھے رہ گئے ہیں کیونکہ وہ نقل مکانی کے متحمل نہیں ہیں۔ تیرتیج پر حملے کے بعد، آواران میں ذکریوں کو نشانہ بنانے والے دیگر واقعات رپورٹ ہوئے۔ سفر کے دوران ذکریوں کی نشاندہی کی گئی اور نیچے اترنے کو کہا اور لوٹ مار کی۔
یہ ذکری مکتب فکر کا ایک مختصر تعارف ہے ۔ یہ موضوع تفصیل کا متقاضی ہے ۔ ایک مختصر تحریر میں جتنا بیان کیا جاسکتا ہے ذکری مکتب کا تعارف میں نے بیان کردیا ہے امید ہے کہ یہ قارئین کے معلومات میں یہ اضافے کا باعث بنے گا ۔