مصنف: صبا حسین
8 مارچ کو شمالی سندھ کے شہر گھوٹکی میں ایک چودہ سالہ ہندو لڑکی کو اغواء کیا گیا۔ یہ واقعہ عورتوں کے عالمی دن پر پیش آیا جب پاکستان کے مختلف طبقات، مذہبوں، نسلوں کی عورتیں ایک ہو کر سڑکوں پر نکلی تھی۔ عورت فاونڈیشن کے مطابق ہر سال کم از کم ایک ہزار غیر مسلم لڑکیوں کا جبری طور پر مذہب تبدیل کروایا جاتا ہے۔ رابعہ بھیل کو اپنے گاؤں لاکھوں بھیل سے بندوق کے زور پر گھر سے اغواء کیا گیا۔ واقعہ کے فوری بعد اف آئی آر درج کروائی گئی کہ لڑکی کو بازیاب کرایا جائے۔
پانچ ماہ قبل اکتوبر 2021 کو پارلیمنٹ کی قائمہ کمیٹی نے جبری طور پر مذہب تبدیلی کے بل کو مسترد کیا تھا۔ بل کو غیر اسلامی قرار دیا گیا اور اس بات سے بھی انکار کیا گیا کہ ملک میں جبری مذہب تبدیلی کا کوئی مسئلہ بھی ہے۔ اس سے پہلے سندھ حکومت نے دو بار جبری تبدیلی مذہب اور شادیوں کو غیر قانونی قرار دینے کی کوشش کی تھی۔ اس بل کے تحت 18 سال سے کم عمر کے بچے اپنے ماں باپ کی رضامندی کے بغیر مذہب تبدیل نہیں کریں گے اور یہ کہ جبری طور پر مذہب تبدیل کروانے والوں کو قانون کے ذریعے سزا دی جائے گی۔ لیکن دونوں بار قدامت پسند مسلم گروہوں کے سخت ردعمل کے بعد قانون کے یہ چراغ روشنی نہیں دے سکے۔
16 مارچ 2022 کو چودہ سالہ رابعہ عدالت میں پیش ہوئی اور پی پی سی 164 کے تحت اس کا بیان ریکارڈ کیا گیا جہاں چودہ سال کی بچی نے اپنے مذہب تبدیلی اور شادی کے بارے میں بتایا۔ نابالغ ہونے کے باوجود اس لڑکی سے شادی کی گئی لیکن عدالت نے اس حوالے سے متعلقہ قانون کو پیش نظر رکھنے سے گریز کیا۔ عدالت نے جائزہ لینے کا حکم دے دیا لیکن اس جائزے کے لیے چودہ سال کی بچی کو شیلٹر ہوم بھیجنے کی بجائے ‘شوہر’ کے ساتھ بھیج دیا گیا۔
جس ملک میں روانہ کی بنیاد پر بچوں کے ساتھ پیش آنے والے جنسی زیادتی، تشدد کے واقعات پر بھی معاشرے میں کوئی حساسیت نہ پائی جاتی ہو سوچیے وہاں اقلیتوں کی بچیوں اور عورتوں کا کیا حال ہوتا ہوگا۔ اس معاشرے نے جہاں عورتوں اور بچوں کو کمزور کیا ہوا ہے وہاں اقلیتوں کے بچیاں کمزور سے کمزور تر کردیا گیا ہے۔ کیا ملکی پارلیمنٹ کمیٹی، جس نے جبری طور مذہب تبدیلی کے بل کو مسترد کیا ہے، اس سوال کا جواب دے سکتی ہے اسلام کی سچائی صرف کم عمر لڑکیوں پر ہی کیوں واضح ہورہی ہے؟ محبت یا شادی کے لیے ہر بار غیر مسلم کو ہی کیوں اپنا مذہب بدلنا پڑتا ہے؟ غیر مسلموں میں بھی ایک عورت پر ہی کیوں دین کی حقیقت کھل رہی ہے؟
اچھا یہاں یہ بھی بتاتی چلوں کہ ہمارے وفاقی قانون کے مطابق ایک لڑکا 18 سال کی عمر میں جبکہ ایک لڑکی 16 کی عمر میں بالغ ہوتی ہے۔ سندھ اب تک واحد صوبہ ہے جس نے 18 سال سے کم عمر لڑکا یا لڑکی کی شادی پر پابندی کا قانون پاس کیا ہے۔ یعنی اندازہ کیجیے کہ ایک شہری جو قومی شناختی کارڈ رنہیں بنواسکتا، ڈرائیونگ لائسنس حاصل نہیں کر سکتا، ووٹ بھی نہیں دے سکتا اور کسی دوسرے معاہدے پر دستخط بھی نہیں کر سکتا اسے یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ مذہب تبدیل کرسکتا ہے اور شادی کرسکتا ہے۔
چلو مان لیا لڑکی 16 سال کی عمر میں بالغ ہو جاتی ہے اور جبری مذہب تبدیلی پر ہمارے پاس کوئی قانون نہیں ہے اس لیے قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں کچھ نہیں کر سکتی۔ لیکن چودہ سال کی بچی جو قانون کے مطابق ابھی نابالغ ہے اس کو گھر سے اغواء کرکے شادی کر لینا، کیا قانون کے مطابق صحیح ہے؟ یہ سوال تو خیر ایسے سماج میں نہیں اٹھایا ہی نہیں جاسکتا جہاں عدالتی سماعت کے بعد مزید کارروائی کے لیے لڑکی کو مجرم کے گھر بھیج دیا جاتا ہے۔ ایسا صرف رابعہ کے کیس میں ہوتا تو چلو کوئی بات تھی یہ ہمارے ہاں عدالتی precident بن چکا ہے۔ رابعہ سے پہلے آرزو نامی ایک کرسچن لڑکی کا بھی ایسا ہی ایک کیس سامنے آیا تھا۔ اس کیس میں بھی عدالتی حکم کے تحت بچی کو مجرم کے گھر رکھا گیا تھا۔
2017 میں ایسا ہی ایک کیس رویتا کا منظر عام پر آیا تھا جس کی عمر 16 سال تھی۔ نگرپور کے ایک گاؤں سے اسے اغوا کے بعد پنجاب لے جایا گیا جہاں سید نواز علی شاہ سے غیر قانونی طور پر اس کی شادی کروادی گئی تھی۔ حسبِ روایت عدالت کا فیصلہ مجرم کے حق میں آیا ۔ ایک معصوم سی بچی کو اس کے مجرم کے ساتھ ہنسی خوشی گھر بھیج دیا گیا۔ حالانکہ سندھ چائلڈ میرجز ریسٹرینٹ ایکٹ کے تحت 18 سال سے کم عمر کی شادی غیر قانونی اور قابل سزا جرم ہے۔ لیکن جو معاشرے عورتوں اور بچوں کو کمزور سمجھ کر اس کا حق مارنے کو اپنا حق سمجھتا ہو وہاں قانون بھی منہ دوسری طرف کرکے سوتا رہتا ہے۔