دھرمیندر کمار
پنجاب کا آخری ضلع رحیم یار خان، سندھ اور پنجاب کی سرحد پر واقع ہے، اس کی آبادی تقریباً اڑتالیس لاکھ کے سے زائد ہے، جس میں ہندو اورمسیحی آبادی بھی شامل ہیں۔ وادی سندھ کے حقیقی و قدیم باشندے صدیوں سے اس سرزمین پر آباد ہیں۔ اس بات کا اندازہ ان کی زبان، رسم و رواج اور ثقافت سے لگایا جاسکتا ہے۔ ان کی آبادی پاکستان سے لے کر انڈیا کے صوبے راجستھان تک پھیلی ہوئی ہے۔ لیکن یہ آج بھی غلامی کی زندگی بسر کررہے ہیں۔
اس وقت رحیم یارخان میں 2017 کی مردم شُماری کے مطابق اقلیتوں کی آبادی 164,293 ہے۔ جن میں ہندو 146,004، مسیحی 14,206 اور شیڈول کاسٹ سے تعلق رکھنے والوں کی تعداد 4,089 ہے- پاکستان بننے سے پہلے ان کا کاروبار جانوروں کی افزائش اور تجارت تھا اور پاکستان بننے کے بعد بہت سے ہندو خاندان انڈیا کے صوبے راجستھان میں آباد ہوگئے اور باقی سب نے پاکستان میں رہنا پسند کیا کیوں کہ اس وقت پاکستان کے حالات اچھے تھے۔ مذہبی شدت پسندی نہ ہونے کے برابر تھی۔ بارڈر نہ ہونے کی وجہ سے یہ خاندان بھارت آتے جاتے رہتے تھے۔ اس وقت بھی ان کے آدھے رشتے دار بھارت میں آباد تھے۔ لیکن آج جس کشمکش میں رحیم یار خان کی ہندو برادری اپنی زندگی بسر کررہی ہے وہ بڑی خطرناک ہے۔
اس کے ساتھ اقلیتوں کی صوبائی اور قومی اسمبلی کی نشستوں پر الیکشن کی جگہ سیلکشن ہوتی ہے- ان کو اپنا نمائندہ منتخب کرنے کا بھی حق نہیں دیا جاتا- 2018 کے الیکشن میں جنوبی پنجاب سے ایک بھی اقلیت کا نمائندہ منتخب نہیں ہوا تھا- پی ٹی آئی کے پانچ اور ن لیگ کے چار،ایم پی اے صرف لاہور سے منتخب ہوئے جو مسیحی مذہب سے تعلق رکھتے ہیں اور ایک نشست سکھ کمیونٹی کو دی گئی۔ جب کہ سکھ برادری کے پنجاب میں صرف پانچ سو رجسٹرڈ ووٹ تھے۔ اس وقت جنوبی پنجاب میں ہندو برادری کی آبادی دو لاکھ کے قریب ہے لیکن ان کا ایک بھی نمائندہ نہیں جو ان کے مسائل کو اسمبلی میں پیش کرسکے۔
ہندو لڑکیوں اور بچیوں کی جبری مذہب تبدیلی پاکستانی ہندوؤں کے لیے سب سے اہم مسئلہ ہے۔ جری مذہب تبدیلی کا بل 2019 کو پارلیمنٹ کی آئینی کمیشن نے تیار کیا تھا لیکن 24 ستمبر2021 وزارت اقلیت اموروبین المذاہب ہم آہنگی نے اس کو مسترد کردیا۔ جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت ہندو برادری کے مسائل اور مستقبل کے بارے میں کبھی سنجیدہ نہیں ہوئی۔ مذہب کے حوالے سے جب کوئی مسئلہ ہوتا ہے، پولیس مظلوموں کا ساتھ دینے سے کتراتی ہے، اور نہ ہی کوئی کاروائی کرتی ہے- بھونگ مندر کے واقع سے پہلے اور بعد میں بہت سے ایسے واقعات ہوئے ہیں جن پر پردہ ڈالا گیا۔
بھونگ سے ایک ہندو تاجر راوت رام اغوا ہوا جس کو ایک ماہ کے بعد تاوان دے کر بازیاب کروایا گیا۔ ستمبر 2021 کی صبح کو عالم رام اور اس کے خاندان پر مسجد سے پانی پینے کے جرم میں تشدد کیا گیا اور مقامی زمیندار رزاق نے اس کے پورے خاندان کو اپنے ڈیرے پر قید کرلیا۔ لیکن پولیس نے کسی قسم کی کوئی رپورٹ درج نہ کی۔
مئی 2020 چک نمبر 121 تحصیل خان پور میں بااثر زمیندار نے 25 افراد کے ساتھ ہندو برادری کی بستی پر حملہ کیا۔ خواتین پر تشدد اور برہنہ کرکے ظلم و جبر کیا گیا لیکن مقامی پولیس چوکی اسلام گڑھ نے کوئی کاروائی نہ کی۔
23مئی 2020 میں بہاولپور کی تحصیل یزمان میں وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ نے چک نمبر 59 ڈی بی میں اقلیتی برادری کی بستی پر حملہ کیا اور ان کے گھر مسمار کردیے۔ لیکن کسی قسم کی کوئی کاروائی نہیں کی گئی۔
ان حالات و واقعات کو دیکھتے ہوئے ہر ہندو خاندان خود کو غیر محفوظ سمجھتا ہے۔ آج آپ رحیم یار خان کے پاسپورٹ آفس جاکر دیکھیں- آپ کو ہر روز سینکڑوں ہندو افراد پاسپورٹ بنواتے نظر آئیں گے- اس وقت ایک اندازے کے مطابق پانچ ہزار خاندان بھارت جانے کے لیے تیار ہیں۔ پانچ ہزار ہندو افراد کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ رحیم یار خان میں پاسپورٹ آفس کا ایک ایجنٹ جس کا تعلق اقلیت سے ہے اس کے مطابق ہر روز تین سے چار ہندو خاندان پاسپورٹ بنواتے ہیں۔ جس سے بھی پوچھا جائے تو وہ یہی کہتا ہے کہ ہم نے اب پاکستان میں نہیں رہنا۔ پاسپورٹ بنوانے کا یہ سلسلہ گزشتہ دو سالوں سے چل رہا ہے۔ میرا خود کا بھی یہ تجربہ ہے ہر سو میں سے دس لوگ انڈیا جانے کی تیاری میں ہیں۔ ویسے تو ہر سال ہزاروں افراد پاکستان چھوڑ دیتے تھے لیکن حالیہ واقعات کے بعد سب خود کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں۔ بھونگ کا واقعہ ہندو تاجر اور عبدالرزاق کے کاروبار کی وجہ سے پیش آیا ،جس کی وجہ یہ تھی کہ ہندو تاجر کا کاروبار اچھا چل رہا تھا اور عبدالرزاق سومرو کا کاروبار کچھ خاص نہ تھا-اس لیے اس معاملے کو مذہبی رنگ دے کر مندر کو توڑا گیا اور آج وہاں سے درجنوں ہندو خاندان دوسرے شہروں میں منتقل ہوگئے ہیں۔
سندھ کے شہر کھپرو میں 30 ستمبر 2021 کو کرشن جنم اشٹمی سے ایک دن پہلے شری کرشن کی مورتی توڑ دی گئی لیکن اس واقعے میں ملوث کسی بھی ملزم کو حراست میں نہیں لیا گیا۔
آخر قائد اعظم محمد علی جناح کے اس پاکستان میں عام آدمی کی زندگی کیوں محدود ہوتی جارہی ہے کیوں ریاست اپنا فرض ادا کرنے سے قاصر ہے؟