تحریر: اختر بلوچ
کراچی میں یہودیوں کی موجودی کے اب صرف دو ہی آثار باقی رہ گئے ہیں۔ اول میوہ شاہ قبرستان میں یہودی قبرستان دوم رنچھوڑ لائن کے علاقے میں ایک عمارت صوفیہ بلڈنگ پر آویزاں اسٹار آف ڈیوڈ یعنی کے ستارہ داؤدی کی علامت، اس عمارت پر سنِ تعمیر 1941 تحریر ہے۔ کراچی میں جس سرعت سے مسیحیوں، پارسیوں، یہودیوں، ہندوؤں اور کراچی میں آباد قدیم مسلمانوں کی تعمیر کی گئی یادگار عمارتوں کو مسمار کیا جا رہا ہے۔ یہ دوآثار بھی جلد معدوم ہو جائیں گی۔ بالکل اُسی طرح جس طرح یہودی مسجد کا اب کوئی سراغ نہیں ملتا۔ اس کا ذکر تفصیل کے ساتھ کریں گے۔
یہودی قبرستان، میوہ شاہ، کراچی
لیکن سب سے پہلے برعظیم کی سیاست میں یہودیوں کے بارے میں قائداعظم محمد علی جناح کی تقاریر کا جائزہ لیتے ہیں۔ قائد اعظم کی تقاریرو بیانات جلد چہارم میں درج ہے کہ 23 جنوری 1946کو انھوں نے فرمایا کہ ’’اگر انگریز فلسطین پر اپنے قرطاس ابیض کی حکمت عملی سے منحرف ہو گئے تو مسلم لیگ ہر ممکنہ طریقے سے مشرق وسطیٰ میں عربوں کی حمایت کرے گی”۔ یہ بات جناح صاحب نے اس وقت کی جب ان سے بمبئی کے اخبار وطن کی اس اطلاع کے بارے میں دریافت کیا گیا کہ آگرہ کے تاجر پہلے ہی سے یہودیوں کی مصنوعات کا مقاطعہ (بائے کاٹ) کر رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اگر یہ اطلاع درست ہے تو یہ بلا قصد نوعیت کی ہے۔ اس ضمن میں مسلمان ہند کے جذبات شدید ہیں۔ لیکن مسلم لیگ نے تنظیمی اور باقاعده طور پر ایسا کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔ اس موقعے پر مسٹر جناح نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ اس سوال کا اگر کوئی اقدام زیر غور ہے تو اس کی نوعیت کیا ہوگی۔ انھوں نے کہا کہ ہند (انڈیا) میں یہودیوں کے خلاف کسی اقدام کی نوعیت محدود ہوگی۔ کیوں کہ ہندوستان میں یہودیوں کی تعداد نسبتاً کم ہے۔ یہ اغلباً بیس (20) ہزارسے زیادہ نہیں ہوں گے۔ تاہم یہودیوں کی جانب سے تیار کی گئی اشیا کی خرید و فروخت کے مقاطعے (بائے کاٹ) کے اقدامات اختیار کیے جاسکتے ہیں۔ جیسا کہ آگرے سے موصولہ اطلاعات سے اندازہ ہوتا ہے۔ وہاں کے دکاندار جو مسلمان ہیں یہودیوں کی بنائی ہوئی سگریٹوں کے فروخت سے انکار کررہے ہیں (خبر کا حوالہ؛ اے پی اے، دی ڈان 24 جنوری 1946)۔
24 دسمبر 1947 کو جناح صاحب نے امام یحیٰ والی یمن کے ایک برقیے (ٹیلی گرام) کے جواب میں لکھا کہ فلسطین کے بارے میں اقوام متحدہ نے اپنے غیر منصفانہ فیصلے کے ذریعے بصیرت کی جس کمی کا مظاہرہ کیا ہے میں اس پر فضیلت مآب کے استعجاب اور صدمے میں برابر کا شریک ہوں۔ میں ایک بار پھر آپ کو اور اپنے عرب بھائیوں کو یقین دلاتا ہوں کہ پاکستان ان کی حمایت کرے گا اور اقوام متحدہ کے فیصلے کی مخالفت کے سلسلے میں ان کی ہر ممکن مدد کرے گا جو فطری طور پر غیرمنصفانہ اور اشتعال انگیز ہے۔ جناح صاحب کا یہ برقیہ (ٹیلی گرام) ان کی تقاریر اور بیانات بحیثیت گورنر جنرل پاکستان1947 – 1948 میں موجود ہے۔
ان کے مذکورہ بیانات اور انٹرویو سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ان کے دل میں فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم کا درد موجود تھا۔ جناح صاحب کے ان خیالات سے ایک بات تو واضح ہے کہ مذہب کے نام پر کسی ریاستی گروہ اور عالمی طاقتوں کی جانب سے اپنے معاشی مفادات کی خاطر ظالموں کی حمایت کے خلاف تھے۔ اب تقسیم ہند کے بعد پاکستان میں موجود یہودیوں کی موجودی کا جائزہ لیتے ہیں۔
برعظیم کی تقسیم سے قبل کراچی میں یہودیوں کی آبادی نہ ہونے کے برابر تھی۔ معروف مورخ ایٹکن اپنی مولفہ سندھ گزیٹئر مطبوعہ 1907 میں یہودیوں کی کراچی میں آبادی کے حوالے سے رقم طراز ہیں کہ؛ مردم شماری کے مطابق کراچی میں آباد یہودیوں کی تعداد صرف 428 ہے۔ ایک اور انگریز مورخ جے ڈبلیو اسمتھ اپنی کتاب “گزیٹئر آف سندھ” کراچی ڈسٹرکٹ مطبوعہ 1919 میں لکھتے ہیں کہ 1911 کی مردم شماری کے مطابق کراچی کی آبادی تقریباً پانچ لاکھ 21 ہزار721 تھی جس میں 76 فیصد مسلمان 21 فیصد ہندو جب کہ بقیہ آبادی میں مسیحی، پارسی اور یہودی شامل تھے۔ کراچی میں آباد یہودیوں کی تعداد کا اندازہ مختلف تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم بچوں کی تعداد سے لگایا جاسکتا ہے۔ تاریخی اعداد و شمار کے مطابق 1916 میں این جے وی ہائی اسکول میں سات (7) یہودی بچے زیر تعلیم تھے۔ جبکہ سندھ مدرسہ ہائی اسکول اور سینٹ پیٹرک اسکول میں بھی کچھ بچے زیر تعلیم تھے۔ چرچ مشن ہائی اسکول میں چھ (6) اور ڈی جے کالج میں دو (2) یہودی بچے زیر تعلیم تھے۔
کراچی کی ابتدائی تاریخ لکھنے والوں میں محمودہ رضویہ کا مقام سب سے اعلیٰ و ارفع ہے۔ انھوں نے اپنی مختصرکتاب میں کراچی کے یہودیوں کا ذکر یوں کیا ہے؛ یہودی لارنس کوارٹر میں آباد ہیں۔ یہ ملازم پیشہ ہیں اور عرف عام میں بنی اسرائیل کہلواتے ہیں۔ اپنا ذبیحہ الگ کرتے ہیں ان کی آبادی بہت کم ہے۔ یہ تعلیم یافتہ اور خاصے خوشحال ہیں۔
یہودی تقسیم سے قبل برعظیم میں آباد دیگر مذاہب خصوصاً ہندوؤں اور مسلمانوں کے ساتھ ہندوستان کی آزادی کی تحریکوں میں بھی شریک رہے ہیں۔
معروف محقق گل حسن کلمتی کے مطابق 18 مارچ 1911 کو علی گڑھ یونیورسٹی کا ایک وفد کراچی کے دورے پر آیا جس کی سربراہی محمد خان المعروف راجا صاحب محمودآباد کر رہے تھے، مذکورہ وفد کے کراچی کینٹ اسٹیشن پہنچنے پر ان کا خیر مقدم علامہ عبدالکریم درس، سر حاجی عبداللہ ہارون، خان بہادر شیخ صادق علی، وزیر اعظم ریاست خیرپور اور دیگر عوامی نمائندوں سمیت سینکڑوں لوگوں نے کیا تھا، وفد کے رہنما ایک بگھی پر سوار تھے جسے کراچی کے لوگ کھینچ رہے تھے، مذکورہ جلوس جب لارنس روڈ پہنچا تو یہاں اسرائیلی مسجد (مسجد بنی اسرائیل جو یہودیوں کی عبادت گاہ کے قریب واقع تھی) کے قریب ابراہام روبن نے راجا صاحب کی سواری اور جلوس پر اتنے پھول نچھاور کیے کہ پوری بگھی پھولوں سے بھر گئی۔
کراچی میں ایک مشہور یہودی نقشہ ساز موزز جے سوماک (Moses J Somak) بھی تھے جنہوں نے کراچی کی کئی عمارتوں کے نقشے بھی بنائے تھے ان میں سب سے مشہور عمارت جو آج بھی اپنی آب و تاب کے ساتھ موجود ہے جسے فلیگ ہاؤس اسٹاف یا قائد اعظم میوزیم کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ عمارت کے داخلی دروازے کے بلکل اوپر چھت کے کونے پر ان کے نام کی تختی بھی آویزاں ہے۔
فلیگ ہاؤس اسٹاف/ قائد اعظم میوزیم، کراچی
کراچی میں ان کا معبد خانہ بھی تھا۔ جسے اسرائیلی مسجد کہا جاتا تھا۔ آج بھی قدیم کراچی کے علاقے رنچھوڑ لائن کے باسیوں کو یہودی مسجد کا پتہ یاد ہے ان میں اکثر کا تعلق راجسھتان سے تقسیم ہند سے قبل کراچی منتقل ہونے والی سلاوٹ برادری سے ہے۔ یہودی مسجد کے حوالے سے اس برادری کے مشاہدات کا ذکر آگے کریں گے۔ اس وقت ذکر کرتے ہیں یہودی مسجد کی مسماری کا۔
کراچی میں یہودیوں کی عبادت گاہوں میں سب سے مشہور Magain Bani Israel Trust Shalome Synagogue کی عمارت تھی جسے آج بھی کراچی کے پرانے لوگ اسرائیلی یا یہودی مسجد کے نام سے پہچانتے ہیں۔ یہ رنچھوڑ لائن کے مرکزی چوک پر واقع ہے۔ جہاں اب اس کی جگہ مدیحہ آرکیڈ کی کثیر المنزلہ عمارت موجود ہے۔
بنی اسرائیل ٹرسٹ کی آخری ٹرسٹی ریشل جوزف نامی خاتون تھیں جنھوں نے اس عمارت کا پاور آف اٹارنی احمد الٰہی ولد مہر الٰہی کے نام کردیا تھا۔ ان میں ایک معاہدہ طے پایا تھا کہ عبادت گاہ کی جگہ ایک کاروباری عمارت تعمیر کی جائے گی۔ عمارت کی نچلی منزل پر دکانیں جب کہ پہلی منزل پر عبادت گاہ ہو گی۔ نچلی منزل پر دُکانیں تو بن گئیں۔ مگر اب عبادت گاہ کی جگہ رہائشی فلیٹ ہیں۔ ریشل جوزف اور فریقین کے درمیان ٹرسٹ کی ملکیت کے حوالے سے مقدمہ بازی بھی ہوئی جس میں ریشل اور ان کے اٹارنی کو کامیابی حاصل ہوئی۔ ریشل کی کراچی موجودگی کے بارے میں ہم نے اپنے ایک وکیل دوست جناب یونس شاد کے ذریعے ان کے وکیل سے رابطہ کیا تو انھوں نے بتایا کہ وہ کافی عرصہ پہلے لندن منتقل ہوگئیں تھیں۔
6 مئی 2007 کو روزنامہ ڈان میں شائع ریما عباسی اپنے ایک مضمون میں ریشل سے گفتگو کا حوالہ دیتی ہیں. یہ گفتگو یہودی قبرستان کے حوالے سے ہے۔ جس کی وہ آخری کسٹودین تھیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ 2007 تک کراچی میں موجود تھیں۔ جس کے بعد وہ یہاں سے چلی گئیں۔
ہم یہ سمجھتے تھے کہ یہ غالباً کراچی میں رہائش پزیر آخری خاتون تھیں لیکن 14 اگست 2021 کو ہم نے جب یہودی قبرستان کا دورہ کیا تو دو قبریں ایسی ہی نظر آئیں جن پر سن وفات 1980 اور 1983 لکھا ہوا تھا۔ 1980 کے کتبے پر یہ تحریر موجود ہے
In Ever Loving Memory of
our Dearest
Father Mr. Ellis Joseph
born 9th July 1910, Died 14 December 1980
A Bitter grief a shock severe
To Part with one we loved so Dear
Our loss is great will not complain
But hope in The Heaven to Meet Again.
اور دوسری قبر کے کتبے پر یہ تحریر رقم ہے
My Loving Affection at F
Sister
Died 17/02/1983
ان قبروں کے کتبوں سے ایک بات تو ثابت ہوتی ہے کہ 1980 کی دہائی تک یہودی کراچی میں موجود تھے اور یہودی قبرستان میں مرحومین کی تدفین بھی کرتے تھے۔ میوہ شاہ قبرستان میں موجود یہودی قبرستان بھی زبوں حالی کا شکار ہے قبرستان کے نگران اور ان کے اہل خانہ وقتاً فوقتاً قبرستان میں اگنے والی خودرو کانٹے دار جھاڑیوں کی صفائی کرتے رہتے ہیں لیکن چونکہ ان کے پاس وسائل اور رقم کی کمی ہے تو اس کی وجہ سے اس قبرستان کی مناسب دیکھ بھال نہیں ہو پاتی دوسری جانب محکمہ ثقافت اور سندھ کے دیگر اس نوعیت کے ادارے یا تو اس قبرستان کے وجود سے بے خبر ہے یا پھر وہ اس سلسلے میں کچھ بھی نہیں کرنا چاہتے ہیں۔
یہودی قبرستان، کراچی
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کراچی سے یہودیوں کی ہجرت کے کیا اسباب تھے۔ جیسا کہ ہم ابتداء میں جناح صاحب کی تقاریر اور بیانات کا حوالہ دے چکے ہیں۔ قیام پاکستان سے قبل قائد اعظم کی فلسطینیوں کے ساتھ ہمدردی بالکل واضح ہے۔ پاکستان نے اسرائیل کو قیام سے لے کر تا حال تسلیم نہیں کیا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان میں بسنے والے یہودی پاکستانی پاسپورٹ پر اسرائیل کا سفر نہیں کر سکتے تھے جو ان کے لیے ایک مقدس مقام کی حیثیت کا حامل تھا۔ ان کے اکثررشتے دار مختلف ذریعوں سے اسرائیل منتقل ہو گئے تھے۔ گو کہ تقسیم ہند سے لے کر قیام پاکستان تک ان کے خلاف کسی قسم کی پر تشدد کاروائی میرے علم میں نہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی ریاست کی جانب سے کسی بھی پر تشدد کاروائی کو اسرائیل ریاست کی بجائے یہودیوں سے جوڑ دیا جاتا تھا۔ قیام پاکستان کے دوران بے شمار سکھ، ہندو، مسلمان اپنے پیاروں کی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ تقسیم کا کرب آج بھی ہمیں دونوں جانب بسنے والے شاعروں، ادیبوں اور دانشوروں کی تحریروں میں نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔ پاک و ہند کے دونوں جانب کے صحافی پڑوسیوں کو دشمن بتاتے ہیں لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے اس دشمنی کے باوجود ویزے کے ذریعے دونوں ممالک میں بسنے والے اپنے عزیزوں سے ملاقات بھی کرسکتے ہیں اور دشمن ممالک میں موجود اپنے مذہبی مقامات کی زیارت بھی کر سکتے ہیں۔ اس حوالے سے انھیں دونوں ممالک کی جانب سے ہر ممکن سہولتیں بھی فراہم کی جاتی ہیں جس کی تازہ مثال کرتار پور ہے۔
لیکن یہودی کیا کرتے؟ دنیا بھر میں جہاں بھی مسلمانوں اور ان کے عقائد و افکار پر کوئی حملہ ہوتا تو اسے یہودیوں کی سازش قرار دیا جاتا تھا۔ یہ سلسلہ اسرائیل کے قیام سے لے کر تاحال جاری ہے۔ ماضی میں اب یہ نہر سوئیز پر قبضہ ہو یا 1979 میں خانہ کعبہ پر حملہ اسے یہودیوں کی سازش کہا جاتا تھا۔ اسرائیل کی کارروائیوں کو بھی یہودیوں کی کارروائی سمجھا جاتا ہے میں نے پاکستان میں آباد یہودیوں کی تاریخ کا بغور مطالعہ کیا ہے یہودیوں کے خلاف کسی منظم رد عمل کا کوئی سراغ نہ پایا۔ معروف صحافی اور مصنف محمد حنیف نے جب اسرائیل کا دورہ کیا تو وہاں ان کی ملاقات کراچی سے اسرائیل منتقل ہونے والے ایک یہودی ڈینئل سے ہوئی اس ملاقات کا احوال انھوں نے یوں بیان کیا ہے:
“میں نے 68ء کے بعد سے کوئی کراچی والا نہیں دیکھا” اس نے سسکیوں کے درمیان مجھے بتایا؛ “میں وہاں انگریزی میڈیم اسکول میں پڑھتا تھا، ہماری اپنی مسجد تھی۔ سن 67 کی جنگ کے دوران ایوب خان نے اس کی حفاظت کے لیے پولیس بھی بھیجی تھی۔’’پھر اس نے دل پر ہاتھ رکھا اور کہا، “ہمیں وہاں کوئی تکلیف نہیں تھی۔ ہمیں کبھی کسی نے گالی نہیں دی۔ ہم نے بس دیکھا کہ سب یہودی لوگ اسرائیل جا رہے ہیں تو ہم بھی آگئے ہیں۔”
یہودی مسجد کے علاقے میں رہائش پذیر سینئر صحافی شکیل سلاوٹ کا کہنا ہے کہ؛ ویسے تو کراچی میں بسنے والے یہودیوں اور ان کی مسجد کے خلاف کبھی کوئی باقاعدہ اور منظم ہنگامہ آرائی نہیں ہوئی لیکن کبھی کبھارمن چلے مسجد کے سامنے کسی واقعے سے متاثر ہو کر نعرے بازی کرتے تھے۔ اس سے زیادہ کچھ بھی نہیں تھا۔